دشوار گذار راستوں اور گھاٹیوں کے تنگ زاویے ، فرحت انقلاب سے لبریز، پرانی وضع قطع کے ساتھ، دشمنان وطن کیلئے آتش فشاں اور وطن کے سرمچاران کے لیے لمّہ وطن کا صحت آفرین مقام، شور پارود کے پہاڑ جس کے سینے میں کئی شہداء جسمانی لحاظ سے اور کئی شہداء کی روحانی یادیں وابستہ ہیں۔
بلوچ قوم کئی منفرد خصوصیات کی حامل قوم ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے بلوچ قوم کو بہتر فوائد کے ساتھ ساتھ بدترین نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہیں۔ بلوچ قوم کو بیرونی قبضہ گیروں سے زیادہ مار آستین نے نقصان پہنچایا ہے۔ لارڈ کی بھگی کھنچنے والے تو تاریخ ہی رقم کرگئے۔ دور جدید میں بھی بلوچ قوم انہیں مسائل کا شکار ہیں۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ جو ہمارے اندر سرائیت کرگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بذات خود عمل سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ ماضی کو فخر سے یاد کرنا ہے۔ بیشک ہمارے اسلاف نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ مگر ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟ ہم دوسروں کے چبائے ہوئے نوالوں پر کب تک وقت گذارتے رہیں گے؟ ہم موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔
بلوچ قومی تحریک میں ایسے ہزاروں فرزندان وطن پیدا ہوئے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے انقلابی انکے پائے خاک تک نہیں پہنچ سکتے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں ذمینی حقائق دنیا کے دوسرے نوآبادیاتوں سے قدر مختلف اور پیچیدہ ہے۔ امیر الملک انہی فرزندان وطن میں سے ایک چمکتے ستارے تھے۔ بالاد میں چلتن، تیکھا ناک نقشہ، بھوری اور سیاہ رنگ کی آمیزش سے بنی آنکھیں، درمیان سے مانگ نکالنے والا نوجوان اکثر داڑھی منڈواتے تھے۔ نورا، نوروز ، اور لونگ خان جیسے بہادروں کی سرزمین جھالاوان کے علاقے توتک میں جنم لینے والا عظیم اور بہادر سپوت امیرالملک ان چنیدہ سرمچاروں میں سے ایک تھے۔ جو ایک کارتوس بچا کر جیب میں الگ رکھتے ۔۔۔۔ دشمن پر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ جھپٹتے اور برق رفتاری سے واپس لوٹ جاتے تھے۔
7 اپریل 2014 کو شور پارود میں ہونے والے فوجی آپریشن میں امیرالملک اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر دشمن کے ساتھ دوبدو لڑرہے تھے۔ وہیں دل جان ٹک تیر دوسرے ساتھیوں کو محفوظ مقام کی جانب لے جانے کے لیے راستہ نکال رہے تھے۔(یاد رہےاسی موقع پہ دل نے دشمن کی ہیلی کاپٹر مار گرائی تھی)
شدید لڑائی کے بعد جب کارتوس ختم ہو گئے، تو جیب میں رکھی آخری کارتوس سے امیر نے اپنے جسم پہ وار کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔۔۔۔
پھلین امیر کی روحانی تسکین کے لیے اسکے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عملی جدوجہد میں شریک ہونا چاہیئے۔
Members of Majeed Brigade of Baloch Liberation Army Who carried out self sacrificing attack on Karachi stock exchange. Fedayeen Tasleem Baloch alias Muslim, Shehzad Baloch alias Cobra, Salman Hammal alias Notak, Siraj Kungur alias Yaagi.
Berlin Germany Baloch National Movement (BNM) Protest For Safe Recovery Of Dr Deen Mohd Baloch Dr Deen Mohd Baloch Missing From June 28 2009 He Was Abducted By Pakistan Army and ISI 11 Years Complete But Nowhere About Of Him
تاریخ کچھ لوگوں کو یاد کرکے فخر محسوس کرتا ہوگا، جنہوں نے تاریخ کو خون سے رقم کیا۔ مصائب مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے آگے بڑھنے کا جنون ہو تو کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔ میں اپنے اس بات کو منوانے کیلئے اگر دلائل پیش کروں تو مجھے دور جانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ جب کبھی میں اس بابت سوچتا ہوں کہ لوہا بھٹی میں گرکر کندن بنتا ہے۔ انسان کیسے مشکلات کا سامنا کرکے سرخرو ہوتا ہے۔ ناممکن کیسے ممکن بن جاتا ہے۔ حالات کو کس طرح قابو کرکے اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مقصد اور منزل کو کیسے اولین درجہ دیا جاتا ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر دیوانے کس طرح سفر در سفر نکلتے ہیں۔ ہر چیز سے بے غرض آسائش اور آرام سے کوسوں دور کون کب اور کیسے کانٹوں پر سفر کرتا ہے۔ تو دور دور تک سوچنے کے بعد خیالوں کا پڑاؤ قریب ہی ہوتا ہے۔ اتنا قریب کہ جسے خود سے جدا نہیں کرسکتے۔ تو وہ پڑاؤ عہد اسلم جان پر ہوتا ہے۔ بلوچستان بلوچ اور مزاحمت خود اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ میں بھی تاریخ ملتے ہیں جو نایاب ہیں۔ جنہیں بھول کر بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ آج اُس شخص کے بابت لکھنے کا سوچ رہا تھا، جس سے صرف ایک بار دوہزار تیرہ م
Comments
Post a comment