گزشتہ سال:607 افراد قتل،ہزاروں لاپتہ کیے گئے،بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن
Get link
Facebook
Twitter
Pinterest
Email
Other Apps
کراچی بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ
نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی ۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پابندی سے وہاں
تعینات فورسز خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں ۔جاری انسر جنسی کو کاؤنٹر کرنے
کے لئے بنائی جانے والی پالیسیاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے
مترادف ثابت ہورہے ہیں، لیکن اس کے خلاف کوئی موثر آواز موجود نہیں ہے۔
بلوچستان میں ریاست کے فوجی و نیم فوجی اداروں کے بہت زیادہ متحرک ہونے کے
باوجود مذہبی شدت پسندی، ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات عام ہیں، دوسری طرف
لوگوں کا اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں بلوچستان میں تعینات
اہلکار براہ راست ملوث ہیں۔ یکم جنوری2016سے لیکر 30دسمبر 2016کے دوران
مجموعی طور پر 607افراد قتل کردئیے گئے ہیں، جن میں 113مسخ شدہ لاشیں بھی
شامل ہیں۔ جبکہ اس دوران مختلف کاروائیوں کے دوران ہزاروں افراد لاپتہ
کردئیے گئے، جن میں سے 1809 افراد کی تفصیلات بی ایچ آر او کو موصول ہوئے
ہیں۔ گرفتار ہونے والے افراد کے لواحقین فورسز کی دھمکیوں کے پیش نظر اپنے
پیاروں کی گمشدگی کی خبر کو میڈیا سے چھپاتے ہیں، جس کی وجہ سے لاپتہ
افراد کی تفصیلات تک رسائی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ البتہ صوبائی حکومت
کی اگست میں شائع ہونے والا بیان لاپتہ افراد کی صورت حال کو واضح کرنے کے
لئے کافی ہے جس میں 13000افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
کمزور عدالتی نظام اور دھونس دھمکیوں کی وجہ سے کوئی شخص ان عسکری اداروں
کے افیسران کے خلاف عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلا سکتا، حتی کہ انتظامیہ کے
مقامی زمہ دار بھی ایف سی اور آرمی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے اپنی
زندگی کی حفاظت کو مدنظر رکھ کر گریز کرتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کا اغواء
اور سالوں لاپتہ کرنے جیسی کاروائیاں ایک دہائی سے جاری ہیں، سینکڑوں ایسے
سیاسی کارکن اب بھی لاپتہ ہیں جنہیں نصف دہائی سال قبل اغواء کیا گیا
تھا۔بی بی گل بلوچ نے کہا بلوچستان سے لوگوں کی بڑی تعداد اب بھی لاپتہ ہے
جنہیں عدالتوں میں پیش نہیں کیا جارہا ہے۔ سنیٹ کی کمیٹی نے 90افراد کو
لاپتہ قرار دیا لیکن صوبائی حکومت کے دعوؤں کے مطابق 17000افراد دو سالوں
کے دوران گرفتار کیے گئے ہیں،جن کو عدالتی کاروائیوں سے دور رکھا جا رہا
ہے جو کہ گمشدگان کے زمرے میں آتے ہیں، صوبائی حکومت کے ترجمان نے دسمبر
2015میں9000گرفتاریوں اور، اگست 2016میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت 13000سے
زائد افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم گرفتار ہونے والوں کی شناخت
اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کے حوالے سے میڈیا کو بے خبررکھا گیا۔
دشت کی متعدد دیہاتوں کی آبادیوں نے آپریشنوں کی وجہ سے نکل مکانی کی ہے۔
نکل مکانی کرنے والے سینکڑوں لوگوں نے تربت، کراچی ، حب چوکی اور مختلف
علاقوں میں پناہ لی ہوئی ہے۔ کولواہ ، ہوشاب، ہیرونک، شاپک ، بالگتر،
آواران، جھالاوان اور کوہِ سلیمان کے علاقوں اور پنجگور کے مختلف علاقوں
سے ہزاروں خاندان اپنے علاقوں سے نکل مکانی کرچکے ہیں، چند ایک جو بچے
ہیں، آئے روز کی دھمکیوں اور آپریشنوں سے تنگ آ کر وہ بھی علاقہ خالی کرنے
پر مجبور ہورہے ہیں۔ ہماری اعداد و شمار کے مطابق کولواہ کے مختلف علاقوں
سے 2578افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آئے
روز کی آپریشنز سے تنگ آ کر مقامی لوگ گرفتاریوں سے بچنے کے لئے حب چوکی،
تربت اور دیگر علاقوں کا رخ کررہے ہیں۔ معاشی مشکلات اور دیگر مصائب کی
وجہ سے نکل مکانی کرنے والے لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ بی بی گل بلوچ
نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو اس صورت حال سے نکالنے کے
لئے ضروری ہے کہ انصاف کے تمام ادارے اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں ،
لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ روکنے
کے لئے متعلقہ ادارے اپنی زمہ داریاں پورا کریں۔ نکل مکانی کرنے والے
لوگوں کی واپس اپنے علاقوں میں بحالی کی جانب بھی زمہ داروں کو فوری توجہ
دینے کی ضرورت ہے
Members of Majeed Brigade of Baloch Liberation Army Who carried out self sacrificing attack on Karachi stock exchange. Fedayeen Tasleem Baloch alias Muslim, Shehzad Baloch alias Cobra, Salman Hammal alias Notak, Siraj Kungur alias Yaagi.
Berlin Germany Baloch National Movement (BNM) Protest For Safe Recovery Of Dr Deen Mohd Baloch Dr Deen Mohd Baloch Missing From June 28 2009 He Was Abducted By Pakistan Army and ISI 11 Years Complete But Nowhere About Of Him
تاریخ کچھ لوگوں کو یاد کرکے فخر محسوس کرتا ہوگا، جنہوں نے تاریخ کو خون سے رقم کیا۔ مصائب مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے آگے بڑھنے کا جنون ہو تو کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔ میں اپنے اس بات کو منوانے کیلئے اگر دلائل پیش کروں تو مجھے دور جانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ جب کبھی میں اس بابت سوچتا ہوں کہ لوہا بھٹی میں گرکر کندن بنتا ہے۔ انسان کیسے مشکلات کا سامنا کرکے سرخرو ہوتا ہے۔ ناممکن کیسے ممکن بن جاتا ہے۔ حالات کو کس طرح قابو کرکے اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مقصد اور منزل کو کیسے اولین درجہ دیا جاتا ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر دیوانے کس طرح سفر در سفر نکلتے ہیں۔ ہر چیز سے بے غرض آسائش اور آرام سے کوسوں دور کون کب اور کیسے کانٹوں پر سفر کرتا ہے۔ تو دور دور تک سوچنے کے بعد خیالوں کا پڑاؤ قریب ہی ہوتا ہے۔ اتنا قریب کہ جسے خود سے جدا نہیں کرسکتے۔ تو وہ پڑاؤ عہد اسلم جان پر ہوتا ہے۔ بلوچستان بلوچ اور مزاحمت خود اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ میں بھی تاریخ ملتے ہیں جو نایاب ہیں۔ جنہیں بھول کر بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ آج اُس شخص کے بابت لکھنے کا سوچ رہا تھا، جس سے صرف ایک بار دوہزار تیرہ م
Comments
Post a comment